حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ، بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو،مبارکپور ،ضلع اعظم گڑھ(اتر پردیش) ہندوستان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ درخت اگر ایک ہوتا ہے تو درخت کہا جاتا ہےمگر جب چند درخت ہوں تو چمن یا باغ بن جاتا ہے۔پتھر کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے رہتے ہیں تو پاؤں سے روندے جاتے ہیں ٹھوکریں کھاتے ہیں لڑھکتے رہتے ہیں مگر جب یہی ٹکڑے ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو پہاڑ بن جاتا ہے۔پھول چاہے کتنے رنگ برنگ کے ہوں کتنے ہی کلر کے ہوں جب چند پھولوں کو اکٹھا جمع کر دیجئے تو گلدستہ بن جاتا ہے۔قطرہ قطرہ مل کر دریا ہوجاتا ہے ۔لیکن جب قطرہ دریا سے جدا ہو جاتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے۔تمام مردہ مسلمانوں میں اتحاد پایا جاتا ہے کہ سب کے چہرے قبلہ کی طرف ہیں مگر زندہ مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ،زندوں کو چاہئے کہ کہ مردوں سے اتحاد کا سبق سیکھیں عبرت و نصیحت حاصل کریں۔
اتحاد ووحدت اتنی ضروری اور اہم چیز ہے کہ ہر گھر میں ،ہر خاندان میں،ہر قوم میں ،ہر ملک میں اور ہر وقت اور ہر ساعت اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔مسلمانوں میں پہلے سے زیادہ آجکل علاقائی و عالمی ہر سطح پر اتحاد قومی و ملی کی شدید ضرورت ہے۔اتحاد امت کا مطلب اپنے اپنے مذہب و مسلک پر کاربند ہوتے ہوئے دوسرے مسلک و مذہب کے پیرو کاروں کا احترام کرنا اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے پرہیز کرنا۔مسلمان ایک امت ہیں ان کےاتحاد کی اساس ایک دین،ایک قرآن،ایک قبلہ،ایک رسول کا ہونا ہے۔
پروردگارعالم نے قرآن مجید میں صاف صاف فرمایا ہے:’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا مت کرو‘‘(سورہ آل عمر ان ،آیت ۱۰۳)اور ایک جگہ ارشاد ہورہا ہے’’ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ‘‘(سورہ انفال ،آیت ۴۶)۔اور ایک جگہ ارشاد ہورہا ہے ’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔(سور ہ ا لحجرات ،آیت ۱۰)۔یہی اسلامی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کی خد مت و اعانت کے لئے وقف کردے۔
حضرت رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ یعنی رسول کریم کے نزدیک وہی شخص مسلمان ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے منبع امن و عافیت اور سر چشمۂ سکون و سلامتی ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا کہ اعلان رسالت کے بعد جو سب سے پہلا سماجی و معاشرتی کارنامہ انجام دیا وہ مسلمانو ں کے درمیان ’’عقد مواخات‘‘اخوت ووحدت کا رشتہ قائم کیا۔اور یہ کام آپ نے پہلے مکہ میں انجام دیا اور پھر ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ بھی انجام دیا۔
علامہ اقبال ؒ ملت اسلامیہ کی غیرت و حمیت کے بارے میں کہتے ہیں ؎
اپنی ملّت پہ قیاس اقوام عالم کا نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
جاگتے رہو :اپنی لا جواب و بے مثال خصوصیت و امتیازیت کی وجہ سے ملّت اسلامیہ اقوام عالم کی نظر میں ہمیشہ سے کھٹک رہی ہے۔اور اسلام و انسانیت کے دشمنوں کے دلوں میں نفرت و عداوت کی آگ سلگ رہی ہے۔اسلام مخالف طاقتوں کا عالمی و علاقائی طور پر پورا زور اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کے اندر دراندرمسلسل اختلاف و انتشار پیدا کیا جائے تاکہ یہ متحد نہ ہونے پائیں ۔اگر یہ متحد ہو جائیں گے تو جس تیزی کے ساتھ صدر اسلام کے زمانہ میں دیکھتےدیکھتے انتہائی سرعت کے ساتھ پورے عرب ممالک میں پھیل گیا اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ اب پوری دنیا میں چھا سکتا ہے۔اس کے لئے پہلے علماء اور قوم کے بیچ دوری پیدا کرنی ہوگی۔پھر شیعہ و سنی میں اختلاف کو ہوادینا ہوگا۔پھر شیعہ شیعہ اور سنی سنی کو آپس میں لڑانا ہوگا۔
اس وقت ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں ایسی ہی صورت حال ہے کہ اسرائیل و امریکہ و برطانیہ کی اسلام دشمن طاقتیں وسیم رضوی نام کے ایک لا مذہب و مرتد کوشیعہ مسلمان کی حیثیت سے شہرت دے کر اور اپنا آلہ کار بنا کے اپنا الّو سیدھا کرنے میں جان توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ جیسا کہ اس سے قبل برطانیہ میں سلمان رشدی کو اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کیا تھا۔
ہوشیار رہو :اس وقت دشمنان اسلام و ایمان ایک تیر سے متعدد شکار کرنے کے چکر میں ہیں ۔جیسے:
پہلے یہ کہ شیعوں کواس قدر مشتعل کرنا کہ یہ جوش و جذبہ اور غیض و غضب میں آکر ملکی قانون کی خلاف ورزی کر کے قانون کی کی نظر میں خود مجرم بن جائیں۔دوسرے یہ کہ شیعہ و سنی کے مابین مسلکی اختلاف کے بہانے جھگڑا کرانا۔تیسرے یہ کہ شیعہ کو شیعہ سے ،سنی کو سنی سے آپس ہی میں لڑنے و مر نےکی چال سکھانا۔
چوتھے خاص طور سے مرجعیت کو بدنام کرنے کے لئے اخباریت و ملنگیت کو اکسانا اور ان کو بڑھاوا دینا۔دشمنان اسلام کا اس وقت یہ سب سے اہم ہدف بظاہر معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ وسیم مرتد کے بارے میں ثبوت و شواہد کی کیا کمی ہے جس کی وجہ سے اب تک اس کی گرفتاری بھی عمل میں نہیں آئی جبکہ شیعہ و سنی سب متحد ہوکر اس کے خلاف سخت احتجاج اورشدید غم و غصہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سیکڑوں اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہیں۔کتنے مقدمے اس کے خلاف چل رہے ہیں اور وسیم مردود کے جرائم جگ ظاہر ہیں۔پھربھی اس ملعون و مرتد کو قرار واقعی سزا دینے میں کس چیز کا انتظا ر ہے ؟جبکہ ایک طرف یہ بھی مشہور ہے کہ حکومت فتوؤں سے تو چلتی نہیں۔ اگر مرجعیت سے ارتداد کا فتویٰ باقاعدہ صادر ہو جائے تو کہیں گے اسلام خوں ریزی و انتہا پسندی کا مذہب ہے۔اور اگر باقاعدہ رسمی طور سے ظاہر میں رسمی فتویٰ منظر عام پر شایع نہ ہوتو اخباریوں اور ملنگیوں کو اکسانے اور بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔
موجودہ نازک حالات میں تمام علماء و مومنین کا فرض منصبی ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے تمام تر ناپاک و مذموم و خطرناک منصوبوں کو آپسی اتحاد و وحدت کی طاقت سے پارہ پارہ کردیں ۔اس لئے کہ ہردور میں اسی فارمولے کے تحت بڑی سے بڑی اسلام دشمن طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی اور آج بھی مسلمانوں کی مذہبی و ملّی فتح و کامرانی کا راز اتحاد و حدت میں ہی مضمر ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ اتحاد و وحدت کے موضوع پر بات ہو اور علامہ اقبالؒ کا یہ شعر جب تک نہ دہرایا جائے موضوع مکمل نہیں ہوگاـ ؎
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے